ڈاکٹر اکرام الحقاس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ اگر پاکستان کو اپنے تمام شہریوں کی خوشحالی کو یقینی بنانا ہے تو اس کو ایک دہائی کے لئے کم از کم سات/آٹھ فیصد شرح نمو درکار ہے، جو مساوی (inclusive) اور پائیدار(sustainable) معاشی ترقی کی ضمانت بھی دے سکے:PIDE Reform Agenda for Accelerated and Sustained Growth (Pakistan Institute of Development Economics (PIDE), April 2021)۔ تاہم، ترقی کی اس سطح کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک طرز حکمرانی (governance) کے تمام شعبوں اور ریاستی اداروں (state institutions) میں جامع ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ کی جائیں اور موجودہ فرسودہ اور جابرانہ ٹیکس ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں نہ کی جائیں، جیسا کہ Towards Broad, Flat, Low-rate, and Predictable Taxes (PRIME انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد، تیسرا ایڈیشن، نومبر 2024) میں نمایاں کیا گیا ہے۔مقامی ماہرین اقتصادیات و مالیات، مصنفین اور محققین کی جانب سے ٹیکس اصلاحات کے لیے متعدد مطالعات اور ماڈلز پیش کیے گئے ہیں، جو کہ بلند شرح نمو اور پائیدار معاشی ترقی میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں، لیکن یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ان پر غور نہیں کیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) پر حکومتوں کا انحصار اور ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادروں کی جانب سے نظام میں اصلاحات کے منصوبوں کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کو سب تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات: تاریخی اور تنقیدی نظریہ (PIDE، 2020) میں تفصیلاً بیان کیا گیاہے ۔ فی الحال، تمام وسیع البنیاد اور ٹیکس آمدن کے بہتر ذرائع وفاقی حکومت کے پاس ہیں۔ تمام صوبوں کا 978.6 ارب روپے ٹیکسز کا حصہ ، کل قومی ٹیکس محصولات12.722 کھرب روپے برائے مالی سال 2024-25 میں، قابل رحم طور پر کم تھا، یہ جی ڈی پی کا محض 0.9 فیصد تھا۔ یہ مجموعی قومی محصولات کی بنیاد (ٹیکس اور غیر ٹیکس محصول) 17997.45 بلین روپے (%15.7 جی ڈی پی) میں 5.2 فیصد تھا۔ اس سال کل قومی اخراجات24494.3 بلین روپے (جی ڈی پی کا 21.4 فیصد)تھے ۔ قومی اخراجات میں صوبوں کا حصہ جی ڈی پی کا 5.1 فیصد تھا۔ تمام صوبوں نے مل کر114,692 بلین روپے کی جی ڈی پی کے مقابلے میں صرف 313.59 بلین روپے کے نان ٹیکس ریونیو حاصل کیے ۔وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 میں دفاع پر 2193 ارب روپے اور قرض کی خدمت پر 8887 ارب روپے خرچ کیے ۔ ساتواں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت 6854 ارب روپے کی صوبوں کو منتقلی کے بعد ، صرف یہ دونوں اخراجات وفاقی حکومت کی خالص آمدنی سے 1134 ارب روپے زیادہ تھے۔ ۔ یہ ہمارا حقیقی اور دائمی مالیاتی مخمصہ ہے۔ایک طرف وفاقی حکومت قرضووں کا انبار لگا رہی ہے، اور دوسری طرف صوبے، جواین ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں، فنڈز بے دردی سے خرچ کر رہے ہیں۔ جو چیز صورتحال کو مزید پریشان کن بناتی ہے وہ یہ ہے کہ خدمات پر سیلز ٹیکس لگانے کے صوبوں کے حق کو وفاقی حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت خدمات پر فرضی/کم از کم ٹیکس، گیس، بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر سیلز ٹیکس کے ساتھ ساتھ متعدد خدمات پر ایکسائز ڈیوٹی کے ذریعے غصب کر رکھا ہے۔ 2025 میں صوبوں نے بھی سروس کے طور پر کرائے پر سیلز ٹیکس لگا کر پارلیمنٹ کا حق غصب کیا!آزادی سے پہلے، صوبوں کو اپنی متعلقہ حدود میں اشیاء پر سیلز ٹیکس لگانے کا خصوصی حق حاصل تھا۔ سیلز ٹیکس کا موضوع گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں سیریل نمبر 48 پر صوبائی قانون سازی کی فہرست میں تھا اور اسے”سامان کی فروخت اور اشتہارات پر ٹیکس“ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ آئین، 1956 میں، ”فروخت اور خریداری پر ٹیکس “ کا ذکر وفاقی قانون سازی کی فہرست کے سیریل نمبر 26 میں کیا گیا تھا، اور اس لیے پہلی بار یہ وفاقی موضوع بن گیا۔ یہ پوزیشن 1962 کے آئین میں برقرار رہی۔1962 کے آئین میں، تیسرے شیڈول میں سیریل نمبر 43 میں شق (j) کے طور پر”فروخت اور خریداری پر ٹیکس“ وفاقی قانون سازی کی فہرست کا حصہ تھا۔ 1973 کے آئین میں جیسا کہ اصل میں اپنایا گیا تھا،’فروخت اور خریداری پر ٹیکس‘ کو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں سیریل نمبر 49 پر رکھا گیا تھا، فورتھ شیڈول میں دی گئی وفاقی قانون ساز فہرست کا حصہ I۔ تاہم، 13 ستمبر 1976 سے نافذ ہونے والے آئینی پانچویں ترمیمی ایکٹ، 1976 کے ذریعہ اس آئٹم کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا جس میں لکھا گیا تھا،”درآمد، برآمد، پیداوار، تیار یا استعمال شدہ سامان کی فروخت اور خریداری پر ٹیکس“۔ایسا لگتا ہے کہ ترمیم شدہ اندراج کا دوسرا حصہ سیلز ٹیکس ایکٹ، 1951 میں فنانس آرڈیننس، 1960 کے ذریعے کی گئی ترمیم سے لیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے تمہید میں”سامان کی کھپت“ کے الفاظ کو ”درآمد، برآمد، پیداوار، تیاری یا کھپت“ سے بدل دیا گیا تھا۔۔مزید تفضیل کے لئے دیکھئے: WAPDA v. Collector of Central Excise and Sales Tax [(2002) 85 TAX 346 (H.C. Lah.)] and Pakistan through Chairman FBR and others v Hazrat Hussain and others (2018) 118 Tax 260 (S.C. Pak)].مروجہ بکھرے (fragmentted) ہوئے سیلز ٹیکس کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کا بہترین حل اشیاء اور خدمات پر متحد (unified) سیلز ٹیکس کی طرف بڑھنا ہے۔ اشیاء اور خدمات پر یونیفائیڈ سیلز ٹیکس لگانے سے کل وصولی تقریباً 9000 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے ۔ مالی سال 2024-25 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے اشیا پر سیلز ٹیکس کی وصولی 3901 ارب روپے اور خدمات پر تمام صوبوں کی طرف سے سیلز ٹیکس کی وصولی مجموعی طور پر 612 ارب روپے تھی۔5000 ارب روپے کی اضافی وصولی نہ صرف وفاقی حکومت کو مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے جگہ دے گا، بلکہ صوبوں میں تقسیم کی رقم میں بھی ہوگا ، یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 160 کے مطابق ہوگا۔صرف خوردہ (retail)شعبے میں تقریباً 15 بلین امریکی ڈالر کی صلاحیت ہے، اگر زیادہ نہیں۔ ریٹیل سیکٹر میں $15 بلین ٹیکس پوٹینشل [فرائیڈے ٹائمز، مئی 25، 2025]، یہ دکھایا گیا ہے کہ فول پروف پوائنٹ آف سیل (POS) کنیکٹیویٹی (connectivity) والے خوردہ فروشوں پر کس طرح 4 فیصدکم شرح سیلز ٹیکس قیمتوں کو نیچے لا سکتا ہے، اور زیادہ آمدنی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جائیں اور وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان ٹیکس کے حقوق پر نظر ثانی کی جائے تو پاکستان کو ایک خود مختار ملک بنانے کے ساتھ اس میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ریٹیل سیکٹر کی صلاحیت کو ابھی تک ایف بی آر نے POS کنیکٹیویٹی کے ذریعے مکمل طور پر استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ تمام آؤٹ لیٹس (outlets)کو رجسٹر کرنے کا ہدف ابھی بھی بہت دور کی بات ہے جیسا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی سالانہ کارکردگی رپورٹ 2023-24 کے صفحہ 19 پر اعتراف کیا گیا ہے۔ ریٹیل سیکٹر $15 بلین ٹیکس پوٹینشل کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر استعمال کرنے کے ماڈل کو Towards Broad, Flat, Low-rate, and Predictable Taxes (PRIME Institute, Islamabad, Third Edition, November 2024) میں دیگر ٹیکس پالیسی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ، لیکن تا حال کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس طرح، وفاقی سطح پر محصولات کی پیداوار سالانہ موجودہ اخراجات سے بہت کم رہتی ہے، ان حالات میں ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کی کیا بات کی جائے۔ نتیجتا وفاقی حکومت کا قرضاجات پر انحصار مزید تکلیف دہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف این ایف سی ایوارڈ کے تحت بڑے حصص حاصل کرنے کے بعد بھی صوبے شہریوں کے تئیں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں۔وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جولائی 2024 سے جون 2025 تک دستیاب کنسولیڈیٹڈ وفاقی اور صوبائی مالیاتی آپریشنز، 2024-25 (عارضی) کی سمری، مالیاتی محاذ پر پاکستان کو در پیش سنگین چیلنجوں کی آئینہ دار ہے ، یہ ظاہر کرتی ہے کہ دفاعی اخراجات کا کچھ حصہ بھی اب قرضے کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مالیاتی ناکامی سے زیادہ ملک کے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی تشویش ناک اور سنگین علامت ہے۔مہنگے قرضوں ، بیرونی اور اندرونی دونوں، کے منفی اثرات کے نتیجے میں قرض کی ادائیگی (debt servicing) پچھلے مالی سال میں 8887 ارب روپے اور مالیاتی خسارہ 6.16 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ 2025 کے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں، رواں مالی سال میں قرضوں اور ان کی ادائیگی میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئینی (اٹھارویں ترمیم) ایکٹ، 2010 [18ویں ترمیم] ،جس کو 20 اپریل 2010 کو صدر کی منظوری حاصل ہوئی، کے بعد کی مدت میں، معاشی منصوبہ بندی کو مرکزیت کی بجائے وفاقی ہونا چاہیے تھا۔ تاہم 15 سال گزر جانے کے بعد بھی کسی نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا، اس پر عمل درآمد کی کیا بات کی جائے۔18ویں ترمیم نے مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کی طرز پر قومی اقتصادی کونسل (NEC) کی نئی تعریف کی۔ NEC آئین کے باب 3 کا حصہ ہے، جس کا عنوان’خصوصی دفعات‘ ہے۔ آرٹیکل (4)167 کے پیش نظر، NEC کا کردار بہت اہم ہو گیا ہے، حالانکہ مرکز اور صوبوں کو ابھی تک اس کا ادراک نہیں ہے۔صوبوں کو درکار قرضوں اور ان کی ادائیگی صوبوں کو برداشت کرنا چاہیے تاکہ وفاقی حکومت کو اس بڑی رقم سے نجات دلائی جائے ،جو ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات کا ایک بڑا حصہ چھین لیتی ہے۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے شق (4) کے اضافے کے بعد آئین کا آرٹیکل 167 درج ذیل ہے:صوبائی حکومت کا قرض لینا167. (1) اس آرٹیکل کے احکام کے تابع، کسی صوبے کا عاملانہ اختیار، صوبائی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر، ایسی حدود کے اندر، اگر کوئی ہوں جو صوبائی اسمبلی کے کسی ایکٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً مقرر کی جائیں، قرض لینے پر، اور اس طرح مقرر کردہ حدود کے اندر، اگر کوئی ہوں، ضمانیتں دینے پر، وسعت پذیر ہو گا۔(2) وفاقی حکومت، ایسی شرائط کے تابع، اگر کوئی ہوں، جنہیں وہ عائد کرنا مناسب سمجھے، کسی صوبے کو قرض دے سکے گی، یا جہاں تک کہ آرٹیکل ۱۶۶ کے تحت مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ ہو جائے، ان قرضوں کے بارے میں، جو کوئی صوبہ حاصل کرے، ضمانتیں دے سکے گی، اور وہ رقوم جو کسی صوبے کو قرض دینے کے لئے درکار ہوں وفاقی مجموعی فنڈ سے واجب الادا ہوں گی۔(3) کوئی صوبہ، وفاقی حکومت کی رضامندی کے بغیر، کوئی قرضہ حاصل نہیں کر سکے گا اگر اس کے ذمہ اس قرضے کا جو وفاقی حکومت کی طرف سے اس صوبے کو دیا گیا ہو، کوئی حصہ ابھی تک باقی ہو، یا جس کی بابت ضمانت وفاقی حکومت کی طرف سے دی گئی ہو، اور اس شق کے تحت رضامندی ایسی شرائط کے تابع، اگر کوئی ہوں، جنہیں عائد کرنا وفاقی حکومت مناسب سمجھے، عطاء کی جا سکے گی۔(4) صوبہ اپنے لئے ملکی یا بین الاقوامی قرضہ اٹھا سکتا ہے یا صوبائی مجموعی فنڈ کی سیکورٹی کی مذکورہ حدود کے اندر اور مذکورہ شرائط پر جس کا تعین قومی اقتصادی کونسل نے کیا ہو گارنٹی دے سکے گا۔18ویں ترمیم صوبوں کو ان کے قدرتی وسائل پر مساوی حقوق دیتی ہے۔ آرٹیکل (3)172 ہائیڈرو کاربن پیٹرولیم وسائل کی 50 فیصد ملکیت صوبوں کو دیتا ہے۔ اس شق کو نافذ کرنے میں قانونی اور انتظامی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں۔اس وقت بہت سے ماہرین اقتصادیات اور سیاستدان یہ بحث کر رہے ہیں کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم وفاق کے مالی استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کے استدلال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 18ویں ترمیم کی دفعات کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ کے معاملے کا جامع طور پر جائزہ لیا جانا چاہیے۔امیروں اور طاقتوروں سے ٹیکس وصول کرنے میں صوبوں کی کارکردگی مثلاً غیر حاضر زمینداروں سے زرعی انکم ٹیکس انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ایک مشترکہ مسئلہ ہے، جو امیروں سے انکم ٹیکس وصول کرنے کی سیاسی خواہش کی عدم موجودگی سے پیدا ہوتا ہے ۔ مالی سال 2024-25 میں تمام صوبوں کی طرف سے زرعی انکم ٹیکس کی معمولی وصولی — 5 ارب روپے سے بھی کم— انتہائی افسوسناک ہے۔یہ ضروری ہے کہ زرعی آمدنی سمیت آمدنی پر ٹیکس جمع کرنے کا حق مرکز کو بات چیت کے ذریعے اور آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت جمہوری طریقے سے دیا جائے جس میں کہا گیا ہے:مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا ایک یا زیادہ صوبوں کی رضامندی سے قانون سازی کا اختیار144. (1) اگر ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں اس مضمون کی قراردادیں منظور کریں کہ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کسی ایسے معاملے کو جدول چہارم کی [وفاقی قانون سازی کی فہرست] میں درج نہ ہوقانون کے ذریعے منضبط کرے، تو مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ)کے لئے جائز ہو گا کہ وہ مذکورہ معاملے کو حسبہ منضبط کرنے کے لئے ایک ایکٹ منظور کرے، لیکن اس طرح منظور کردہ کسی ایکٹ میں ایسے صوبے کی بابت جس پر وہ اطلاق پذیر ہو، اس صوبے کی اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے ترمیم یا تنسیخ کی جا سکے گی۔اسی طرح مرکز اور صوبوں کو مشترکہ طور پر اشیاء اور خدمات پر یونیفائیڈ سیلز ٹیکس لگانا چاہیے۔ ٹیکسوں کی تقسیم آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت طے شدہ فارمولے کے مطابق سختی سے ہونی چاہیے۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وصولی مئوثر ہو جائے، اور شہریوں/ٹیکس دہندگان کو اپنے واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے لیے سنگل ونڈو کی سہولت حاصل ہو۔ اس سے ریاست کو اصل صلاحیت کے مطابق 34 ٹریلین روپے ٹیکس جمع کرنے میں مدد ملے گی۔— تفصیلات Towards Broad, Flat, Low-rate, and Predictable Taxes (PRIME Institute, Islamabad, Third Edition, November 2024)میں دستیاب ہیں۔ ریاست کو درپیش ابھرتے ہوئے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ یہ 18ویں آئینی ترمیم کو متاثر کیے بغیر پاکستان میں پائیدار مالیاتی استحکام کو بھی یقینی بنائے گا اور خود کفالت کے مطلوبہ ہدف کو حاصل کرے گا۔________________________________________________
ڈاکٹر اکرام الحق، وکالت کے شعبے سے وابسطہ اور متعدد کتابوں کے مصنف، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینئر وزیٹنگ فیلو ہیں۔